جو مہندی کا بٹنا ملا کیجئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو مہندی کا بٹنا ملا کیجئے گا
by حاتم علی مہر

جو مہندی کا بٹنا ملا کیجئے گا
پسینے کو عطر حنا کیجئے گا

ستم کیجئے گا جفا کیجئے گا
یہی ہوگا اور آپ کیا کیجئے گا

پھڑک کر نکل جائے گا دم ہمارا
قفس سے جو ہم کو رہا کیجئے گا

جو کہتا ہوں اچھا نہیں ظلم کرنا
تو کہتے ہیں وہ آپ کیا کیجئے گا

قیامت میں دیدار کا کب یقیں ہے
یوں ہی لن ترانی سنا کیجئے گا

کہا حال دل تو وہ یہ کہہ کے اٹھے
میں جاتا ہوں بیٹھے بکا کیجئے گا

شہنشاہ کہتے ہیں ان کے گدا سے
ہمارے لیے بھی دعا کیجئے گا

گلوں کا وہی پیرہن ہوگا صاحب
عنایت جو اپنی قبا کیجئے گا

کنارہ بھلا تم سے اے بحر خوبی
ڈبونے ہی کو آشنا کیجئے گا

منجم نے ہاتھ ان کے دیکھے تو بولا
گلوں کی قبا کو قبا کیجئے گا

مری جان کے مدعی آپ ہوں گے
سماعت اگر مدعا کیجئے گا

بہت ناز پروردہ ہے دل ہمارا
ذرا لطف اس پر کیا کیجئے گا

نہ دیوانہ بنتے جو معلوم ہوتا
پری بن کے ہم سے اڑا کیجئے گا

بتو برق ہیں درد مندوں کی آہیں
خدا کے غضب سے ڈرا کیجئے گا

بہت فیض بخشی کا سنتے ہیں شہرا
ہماری بھی حاجت روا کیجئے گا

خدا کے لیے میرزا مہرؔ صاحب
بتوں پر کہاں تک مٹا کیجئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse