جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
by مرزا جواں بخت جہاں دار

جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
نہ حشر کو بھی اٹھیں گے نگاہ کے مارے

مثال برگ خزاں صرصر فراق سے آہ
پٹکتے پھرتے ہیں سر ہم تباہ کے مارے

عزیزو دل نہ دو یوسف کی کر کے چاہ کبھی
کہ جا کے چاہ میں گرتے ہیں چاہ کے مارے

الٰہی حشر میں آواز صور سن کیوں کر
اٹھوں گا آہ میں بار گناہ کے مارے

حذر کر آہ دل ناتواں سے اے ظالم
کہ کوہ ٹل گئے ہیں برگ کاہ کے مارے

نہ سمجھیو کہ فلک پر ستارے ہیں روشن
ہیں رخنہ دار مرے تیر آہ کے مارے

بسان نقش قدم تیرے در سے اہل وفا
اٹھاتے سر نہیں ہرگز تباہ کے مارے

اجڑ گئے خرد و صبر و ہوش و تاب و تواں
اسی کے ناز و ادا کی سپاہ کے مارے

جہان دل اے جہاں دارؔ ایک دن نہ بسا
جفائے شاہ تغافل شعار کے مارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse