جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے
by شیخ ظہور الدین حاتم

جو مرے ہم عصر ہم صحبت تھے سو سب مر گئے
اپنی اپنی عمر کا پیمانہ ہر یک بھر گئے

پوچھتے کیا ہو گناہوں کے گرفتاروں کا حال
خشک زاہد تھے سو اس جاگہ سے دامن تر گئے

ہاتھ سے صیاد کے ثابت نہ چھوٹا ایک صید
بال و پر رکھتے تھے سو بے بال اور بے پر گئے

یہ قمار عشق ہے اے بو الہوس بازی نہ جان
سر گئے بہتوں کے اور بہتوں کے اس میں گھر گئے

ہم نے ہستی اور عدم کی آ کے کی ہے خوب سیر
رسم و آئیں دیکھ ان لوگوں کا از بس ڈر گئے

ایک جو آیا اسے لے گود میں دی گھر میں جا
دوسرے کو کاڑھ کر گھر سے زمیں میں دھر گئے

تم کہو اپنی میاں حاتمؔ کہ ہو کس فکر کی
اور جو آئے جنے جیسی بنی سو کر گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse