جو مدتوں میں کسی شوخ کا شباب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو مدتوں میں کسی شوخ کا شباب آیا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

جو مدتوں میں کسی شوخ کا شباب آیا
رہین دامن و منت کش حجاب آیا

نمود شام ہوئی وقت اضطراب آیا
جہان عشق و محبت میں انقلاب آیا

جنوں میں زیست تھی اپنی طلسم بیداری
قضا نے آ کے سلایا تو ہم کو خواب آیا

نہ دل میں درد ہی باقی ہے اب نہ آنکھ میں اشک
اخیر وقت ہے پایان اضطراب آیا

بس اب تمام ہوا انتظار قاصد کا
کہ زندگی کی طرف سے ہمیں جواب آیا

غضب تھی بزم میں ساقی کی طرز مستانہ
بھرا ہوا نہ کوئی ساغر شراب آیا

نظام عالم فرقت خلاف قدرت تھا
نہ ماہتاب ہی نکلا نہ آفتاب آیا

نظرؔ اقامت دنیا کی ختم مدت ہے
کہ ہم بھی پیر ہوئے وقت پا تراب آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse