جو محبان وفا ہیں وہ وفا کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو محبان وفا ہیں وہ وفا کرتے ہیں
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

جو محبان وفا ہیں وہ وفا کرتے ہیں
کچھ غرض اس سے نہیں کوئی جفا کرتے ہیں

خوگر درد ہیں سب کچھ وہ سہا کرتے ہیں
دشمنوں سے نہیں مطلب کہ وہ کیا کرتے ہیں

ہم جگر تھام کے جب آہ رسا کرتے ہیں
اک قیامت میں قیامت ہی بپا کرتے ہیں

چارہ گر کا ہو بھلا کون رہین منت
ہم تو خود اپنی ہی زخموں کو سیا کرتے ہیں

ساز ہو عیش کا یا سور مصیبت دم ساز
اب تو ہر حال میں ہم شکر ادا کرتے ہیں

آپ شرما گئے کیوں دیکھ کے رقص بسمل
کیا کہیں تیر نظر چل کے خطا کرتے ہیں

آتش عشق وطن رکھتے ہیں دل میں روشن
اپنی ہی آگ میں جل جل کے بجھا کرتے ہیں

ہر حباب لب جو جلوہ گہہ ہستی ہے
نقش بن بن کے زمانہ سے مٹا کرتے ہیں

شوقؔ سا بندۂ آزاد زمانہ میں کہاں
آج سنتے ہیں کہ وہ یاد خدا کرتے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.