جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے
by رشید لکھنوی

جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے
میرے سویم میں تمہیں پوشاک بھاری چاہئے

تازہ ہو باغ تمنا آبیاری چاہئے
آج تو اے چشم تر کچھ اشک باری چاہئے

جب بہار آئے تو کب پرہیزگاری چاہئے
سال بھر میں چار دن تو بادہ خواری چاہئے

دل جگر سے جب میں کہتا ہوں نہیں آئے گا یار
کہتے ہیں کچھ دیر تو اور انتظاری چاہئے

ہوں حواس و ہوش اگر باقی تو کیا لطف جنوں
دل نہ قابو میں ہو وہ بے اختیاری چاہئے

راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا
عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہئے

وصل کی شب ہے وہ پہلو میں ہیں تو سونے نہ دے
ہاں مرے دل اب زیادہ بے قراری چاہئے

موت بیکار آتی ہے مرنا ہمارا ہے محال
آپ کی تلوار کا اک زخم کاری چاہئے

روتے روتے مر گئے ہیں جو فراق یار میں
ان کو بہر غسل میت آب جاری چاہئے

سیکھی ان سے دل ربائی آ گئی فصل شباب
آج کل دل کی طرف سے ہوشیاری چاہئے

سر نہ اٹھے تیری چوکھٹ سے نہ کوچے سے قدم
طوق بھاری چاہئے زنجیر بھاری چاہئے

ہو زیادہ روشنی اور دیر تک باقی رہے
میری شمع روح کو محفل تمہاری چاہئے

آپ کے لاؤ نعم نے طرفہ دکھلایا طلسم
نا امیدی کہتی ہے امیدواری چاہئے

تیرے چہرے کے مقابل ہو اگر تو اس طرح
آفتاب حشر کو آئینہ داری چاہئے

یہ تمہاری جا نہیں آنکھوں کے وا سے ہیں یہ در
دل میں دوں تم کو جگہ یہ پردہ داری چاہئے

بخش دیتا ہے رشیدؔ اللہ اتنی بات پر
کر کے عصیاں آدمی کو شرمساری چاہئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse