جو لا مذہب ہو اس کو ملت و مشرب سے کیا مطلب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو لا مذہب ہو اس کو ملت و مشرب سے کیا مطلب
by ساحر دہلوی

جو لا مذہب ہو اس کو ملت و مشرب سے کیا مطلب
مرا مشرب ہے رندی رند کو مذہب سے کیا مطلب

کتاب درس مجنوں مصحف رخسار لیلیٰ ہے
حریف نکتہ دان عشق کو مکتب سے کیا مطلب

حسینان دو عالم میں ہے جلوہ حسن یکتا کا
نظر میں حسن یکتا جب ہوا ان سب سے کیا مطلب

ہمارا ہوش ہر دم آشنائے نحن اقرب ہے
حضوری جس کو حاصل ہو اسے یا رب سے کیا مطلب

تمنائیں بر آئیں اپنی ترک مدعا ہو کر
ہوا دل بے تمنا اب رہا مطلب سے کیا مطلب

ہمارے عرصۂ شطرنج میں ہے شاہ دیوانہ
جسے حاصل ہو آزادی اسے اردب سے کیا مطلب

ہمارا سجدہ ہے ہر گام پر پیر طریقت کو
سلوک عشق میں سر ہے قدم مرکب سے کیا مطلب

ہمیں تو یار سے مطلب ہے ساحرؔ اور یاری سے
ہمارا یار اور اغیار کے مطلب سے کیا مطلب

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse