جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
by سیماب اکبرآبادی

جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں

لگاؤ ہے مری تنہائیوں سے فطرت کو
تمام رات ستارے لگائے جاتے ہیں

سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں
یہ بت کدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں

سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو
ارے انہیں سے زمانے بنائے جاتے ہیں

ہیں دل کے داغ بھی کیا دل کے داغ اے سیمابؔ
ٹپک رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse