جو عضو باطن خدا بناتا تو ہم دل بے قرار ہوتے
Appearance
جو عضو باطن خدا بناتا تو ہم دل بے قرار ہوتے
جو عضو ظاہر خدا بناتا تو دیدۂ اشک بار ہوتے
جو گرد کر کے خدا اڑاتا تو اڑتے گرد ملال ہو کر
جو سنگ کر کے خدا جماتا تو جم کے لوح مزار ہوتے
خدا جو شانہ ہمیں بناتا تو ہم خلش ہوتے اپنے دل کی
خدا جو آئینہ ہم کو کرتا تو اپنے حیران کار ہوتے
جو روز ہم کو خدا بناتا تو بنتے روز فراق جاناں
جو رات ہم کو خدا بناتا تو ہم شب انتظار ہوتے
غرض کہ ایسا مصیبتوں کا ہمارے دل کو مزا پڑا ہے
کہ قدرؔ ہم کو خدا بناتا تو ہو کے بے قدر خوار ہوتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |