جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
by نظام رامپوری

جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
جو یاد آئیں گی تیری باتیں تو چپ ہی پہروں رہا کریں گے

جو چاہو کہہ لو یہی خوشی ہے تو ہم بھی پھر کیوں گلا کریں گے
جو کچھ سنائے گی اپنی قسمت تمہارے منہ سے سنا کریں گے

کسے غرض ہے پھر آپ کو کیوں صنم کا بندا کہا کریں گے
جو یوں ہی ہم کو بھلائیں گے وہ تو ہم بھی یاد خدا کریں گے

عبث یہ ہر دم کا چونکنا ہے عبث یہ اٹھ اٹھ کے دیکھنا ہے
بھلا وہ ایسے ہوئے تھے کس دن وہی تو وعدہ وفا کریں گے

الٰہی قاصد ابھی نہ آئے کہ یہ توقع بھی ہے غنیمت
کیا گر انکار صاف اس نے تو دل کی تسکین کیا کریں گے

لو مل بھی جاؤ نہ کچھ تمہاری خطا تھی اس دم نہ کچھ ہماری
جو یہ ہی دل کے معاملے ہیں تو یوں ہی جھگڑے رہا کریں گے

ہمیں تو دیکھو یہ کیا ہوا ہے کہ ان کے کہنے کا پھر یقیں ہے
وہ جو جھوٹ یوں ہی کہا کریں گے عدو سے یوں ہی ملا کریں گے

ستم کی کیجے اگر شکایت تو کہتے ہیں بس تمہیں بھی دیکھا
یہاں کچھ ایسی غرض ہے کس کو کسی پہ ہم کیوں جفا کریں گے

یہ سچ ہے ناصح! نہ ہوگا ملنا نہیں ہے اچھا نہ ہوگا اچھا
پھر آپ کو کیا برا کہیں گے تو اپنے حق میں برا کریں گے

نظامؔ تقریر پھر عبث ہے جواب کچھ اس کا دے سکو گے
وہ اس کا ہر بات پر یہ کہنا کہ ہم تو اپنا کہا کریں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse