جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
by بیاں احسن اللہ خان

جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
آسماں پر دماغ رکھتے ہیں

ساقی بھر بھر انہیں کو دے ہے شراب
جو کہ لبریز ایاغ رکھتے ہیں

تیرے داغوں کی دولت اے گل رو
ہم بھی سینے میں باغ رکھتے ہیں

حاجت شمع کیا ہے تربت پر
ہم کہ دل سا چراغ رکھتے ہیں

آپ کو ہم نے کھو دیا ہے بیاںؔ
آہ کس کا سراغ رکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse