جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
by شاہ نصیر

جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
دوست افسوس نہ سمجھا مجھے دشمن سمجھا

ناتواں وہ ہوں کہ بستر پہ مجھے دیکھ کے آہ
تار بستر کوئی سمجھا کوئی سوزن سمجھا

تیغ قاتل جو محبت سے لگی آ کے گلے
تاب کو اس کی میں اپنی رگ گردن سمجھا

اپنے پاجامۂ کمخواب کی ہر بوٹی کو
شمع رو شب کو چراغ تہہ دامن سمجھا

سرعت ابلق ایام سے غافل تھا آہ
دم آخر میں اسے عمر کا توسن سمجھا

خار صحرا سے چھدی جب کف پا مجنوں کی
خاک بیزی کو وہ غربال کا روزن سمجھا

کمر یار کا ازبسکہ جو رہتا ہے خیال
دل کو میں چینیٔ مو دار کا برتن سمجھا

گل کو معلوم نہ تھی ہستئ فانی اپنی
اے نسیم سحری وقت شگفتن سمجھا

بستر گل سے منقش جو ہوا اس کا بدن
تن نازک پہ وہ پھلکاری کی چپکن سمجھا

جیتے جی چاہئے ہے عاقبت کار کی فکر
فائدہ کیا اگر انساں پس مردن سمجھا

میرزائی کو نہ فریاد نے چھوڑا تا مرگ
جیغۂ سر تجھے اے تیشۂ آہن سمجھا

عکس افگن ہے ترے ساغر صہبا میں یہ زلف
تو عبث اے بت مے کش اسے ناگن سمجھا

سایۂ زلف نے اس کے یہ دیا دھوکا رات
چلنے والوں نے جسے افعی رہزن سمجھا

چشم نے اپنی طرف سے تو سجھائی تھی نصیرؔ
دل نہ پر اس ستم ایجاد کی چتون سمجھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse