جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب
by منیرؔ شکوہ آبادی

جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب
تو چشم جام سے اے شیخ دیکھ سوئے شراب

کبھی تو دے گل دستار شیخ بوئے شراب
قبا کی بیل میں یا رب لگے کدوئے شراب

وہ مست ہیں جو ہیں مجروح تیغ موجۂ مے
جگر کے چاک پہ اے گل بنے سبوئے شراب

جو عاشق لب بے گون یار ہو فرہاد
تو بے ستون سے بھی جائے شیر جوئے شراب

وہ مست ہیں کہ جو تیجا پس فنا ہوگا
ہمارے پھول بنیں گے گل کدوئے شراب

ہمیشہ مے کدہ میں خوش قدوں کا مجمع ہے
ہزاروں سرو لگے ہیں کنارے جوئے شراب

لگائیں تاک کے اس مست نے جو تلواریں
دہان زخم بدن سے بھی آئی بوئے شراب

ڈبو دیا مجھے طوفان مے نے اے ساقی
عمیق تر قد آدم سے نکلے جوئے شراب

نماز شکر کی پڑھتا ہے جام توڑ کے شیخ
وضو کے واسطے لیتا ہے ابروئے شراب

وہ رشک حور مے مشکبو کا خواہاں ہے
گل بہشت ہے مشتاق رنگ و بوئے شراب

صدائے قلقل مینا سے ہو گیا ثابت
کہ پیٹ بھر کے کریں مست گفتگوئے شراب

برنگ شیشۂ مے اب کی فصل بارش میں
کریں گے بیٹھ کے کشتی میں سیر جوئے شراب

کھلا یہ شیشوں کے جھکنے سے حال اے ساقی
کہ سرکشی نہیں لازم ہے روبروئے شراب

اسیر دام علائق ہوں کس طرح مے خوار
کہ رسیوں میں نہیں باندھتے سبوئے شراب

نہ ہو جو کشت عمل اپنی سبز اے ساقی
ریاض خلد سے ہم کاٹ لائیں جوئے شراب

علاج ضعف بصر نور مے ہے مستوں کو
ہماری آنکھوں کی چشمہ بنے گی جوئے شراب

پتا لگا کے گیا سوئے گلشن جنت
کہاں کہاں نہیں کی میں نے جستجوئے شراب

کسی نے ساغر مے سے گلوں کو دی تشبیہ
نسیم باغ سے آئی جو آج بوئے شراب

ملیں گے ساغر و مینا جو خالی اسے ساقی
کریں گے دیدہ و دل اپنی جستجوئے شراب

کیا جو میکشوں نے عزم سیر عالم آب
تو بدلے تونبوں کے ہاتھ آ گئی کدوئے شراب

خرید جنس شفاعت میں ہوگی کیفیت
ہماری گانٹھ میں ہے نقد آبروئے شراب

بہک کے جاؤں جو مستی میں جانب کوثر
تو مجھ کو دست سبو کھینچ لائے سوئے شراب

یہ کس کے آنے سے مے خانہ میں ہوئی شادی
دلہن کے عطر سے ملتی ہے آج بوئے شراب

بدن جو ٹوٹ رہا ہے ظروف مے کے ساتھ
بنا ہے کیا گل آدم سے ہر سبوئے شراب

وہ رشک مے کرے بالائے بام مے خواری
الٰہی آج خط کہکشاں ہو جوئے شراب

ظروف بادۂ گلگوں ہو میرے کاندھوں پر
فرشتوں سے بھی میں اٹھواؤں ہر سبوئے شراب

کھلا یہ پھولوں کے ہونے سے حال اے زاہد
پس فنا بھی ہے رندوں کو آرزوئے شراب

سنا ہے پاس مسیحا کے آفتاب بھی ہے
کریں گے موت کے حیلے سے جستجوئے شراب

نہ ہو سکی کوئی تعزیر مے کشی ثابت
زیادہ حد سے بڑھی آج گفتگوئے شراب

گدائے بادہ ہوں الفت میں چشم میگوں کے
ترے فقیر کا تونبا بنا کدوئے شراب

حضور دختر زر ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں
تمام مستوں کو رعشہ ہے روبروئے شراب

منیرؔ ساقیٔ کوثر سے لوں شراب طہور
کبھی میں آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں سوئے شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse