جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
by نظیر اکبر آبادی

جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
اگر نہ دیجے تو وو ہیں کیا کیا جتاوے خفگی عتاب اکڑ بل

اگر یہ کہئے کہ ہم ہیں بے کل ذرا گلے مل تو ہنس کے ظالم
دکھاوے ہیکل اٹھا کے یعنی بلا سے میری مجھے تو ہے کل

جو اس بہانے سے ہاتھ پکڑیں کہ دیکھ دل کی دھڑک ہمارے
تو ہاتھ چھپ سے چھڑا لے کہہ کر مجھے نہیں ہے کچھ اس کی اٹکل

جو چھپ کے دیکھیں تو تاڑ جاوے وگر صریحاً تو دیکھو پھرتی
کہ آتے آتے نگاہ رخ تک چھپا لے منہ کو الٹ کے آنچل

کرے جو وعدہ تو اس طرح کا کہ دل کو سنتے ہی ہو تسلی
جو سوچیے پھر تو کیسا وعدہ فقط بہانہ فریب اور چھل

جو دل کو بوسے کے بدلے دیجے تو ہنس کے لیلیٰ بہت خوشی سے
جو بوسہ مانگو تو پھر یہ نقشا کبھی تو آج اور کبھی کہے کل

نہ جل میں آوے نہ بھڑ کے نکلے نہ پاس بیٹھے نظیرؔ اک دم
بڑا ہی پر فن بڑا ہی سیانا بڑا ہی شوخ اور بڑا ہی چنچل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse