جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا
by قدر بلگرامی

جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا
وہی ہے تمغہ مری جبیں کا وہی سلیماں مرے نگیں کا

گئی نہ مر کر بھی کینہ خواہی ملا کے مٹی میں کی تباہی
مری طرح سے کہیں الٰہی فلک بھی پیوند ہو زمیں کا

تڑپ نہ پوچھو دل حزیں کی کہوں میں تم سے کہاں کہاں کی
اسی سے ہے گردش آسماں کی اسی سے ہے زلزلہ زمیں کا

جہان سر پر اٹھا رہا ہوں جنوں میں دھومیں مچا رہا ہوں
جو دشت میں خاک اڑا رہا ہوں دماغ گردوں پہ ہے زمیں کا

کرم میں ہم کو غضب میں ہم کو کیا جو ممتاز سب میں ہم کو
تمہاری دشنام و لب میں ہم کو مزہ ملا زہر و انگبیں کا

یہ لاغری اب ہے خار دامن کہ اٹھ نہیں سکتا بار دامن
جو پاؤں اپنا ہے تار دامن تو ہاتھ ہے تار آستیں کا

میان محشر ملالتوں سے میں شمع ہوں دل کی حالتوں سے
کہ پاؤں تک سو خجالتوں سے عرق بہا ہے مری جبیں کا

سخن کو قدرؔ اوج دے زباں سے کہ تخم افشاں ہو لا مکاں سے
کیا ہے ناسخؔ نے آسماں سے بلند تر رتبہ اس زمیں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse