جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں
Appearance
جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں
جو بات ہے کام کی وہ چلنے کی نہیں
یہ بھی ہے بہت کہ دل سنبھالے رہئے
قومی حالت یہاں سنبھلنے کی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |