جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
by شاد عظیم آبادی

جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
ستم دیکھو کہ وہ بھی چھوٹتے پہچان لیتے ہیں

بہ قدر حوصلہ صحرائے وحشت چھان لیتے ہیں
مسافر ہیں سفر کے واسطے سامان لیتے ہیں

خدا چاہے تو اب کے قتل گہہ میں مشکل آساں ہو
ترے بیمار ناحق موت کا احسان لیتے ہیں

کہیں مرقد پہ جاتے ہیں کہیں گھر تک نہیں جاتے
کسی کو جان دیتے ہیں کسی کی جان لیتے ہیں

کدورت تاکہ رہ جائے سب اپنے دامن تر میں
شراب شوق ہم پینے کے پہلے چھان لیتے ہیں

ہماری شاعری زندہ ہوئی اے شادؔ مرنے پر
کہ شائق نقد جاں دے دے کے اب دیوان لیتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse