جو تم نے پوچھا تو حرف الفت بر آیا صاحب ہمارے لب سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو تم نے پوچھا تو حرف الفت بر آیا صاحب ہمارے لب سے
by نظیر اکبر آبادی

جو تم نے پوچھا تو حرف الفت بر آیا صاحب ہمارے لب سے
سو اس کو سن کر ہوے خفا تم نہ کہتے تھے ہم اسی سبب سے

نہ دیتے ہم تو کبھی دل اپنا نہ ہوتے ہرگز خراب و رسوا
ولے کریں کیا کہ تم نے ہم کو دکھائیں جھمکیں عجب ہی چھب سے

وہ جعد مشکیں جو دن کو دیکھے تو یاد اس کی میں شام ہی سے
یہ پیچ و تاب آ کے دل سے الجھے کہ پھر سحر تک نہ سلجھے شب سے

لگائی فندق جو ہم نے اس کی کلائی پکڑی تو ہنس کے بولا
یہ انگلی پہنچے کی یاں نہ ٹھہری بس آپ رہئے ذرا ادب سے

کہا تھا ہم کچھ کہیں گے تم سے کہا تو ایسا کہ ہم نہ سمجھے
سمجھتے کیوں کر کہ اس نے لب سے سخن نکالا کچھ ایسے ڈھب سے

ہوس تو بوسے کی ہے نہایت پہ کیجئے کیا کہ بس نہیں ہے
جو دسترس ہو تو مثل ساغر لگاویں لب کو ہم ان کے لب سے

کسی نے پوچھا نظیرؔ کو بھی تمہاری محفل میں بار ہوگا
کہا کہ ہوگا وہ بولا کب سے کہا کبھو کا کبھی، نہ اب سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse