جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا
by بیخود دہلوی

جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا
جب سمجھ آ گئی دنیا کو تماشا سمجھا

اس کی اعجاز نمائی کا تماشائی ہوں
کہیں جگنو بھی جو چمکا ید بیضا سمجھا

میں یہ سمجھا ہوں کہ سمجھے نہ مری بات کو آپ
سر ہلا کر جو کہا آپ نے اچھا سمجھا

اثر حسن کہوں یا کشش عشق کہوں
میں تماشائی تھا وہ مجھ کو تماشا سمجھا

کیا کہوں میرے سمانے کو سمجھ ہے درکار
خاک سمجھا جو مجھے خاک کا پتلا سمجھا

ایک وہ ہیں جنہیں دنیا کی بہاریں ہیں نصیب
ایک میں ہوں قفس تنگ کو دنیا سمجھا

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.