جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
by شاد لکھنوی

جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
تو پھر ہوں باہم دگر نظارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

جو کچھ گزرتی ہے دل پہ پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
کہیں وہ کس سے عدو ہیں سارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

چلے وہ باد مراد ہمدم جو بحر غم سے نکالے باہم
خوشی کے بجرے لگیں کنارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خوشی تھی خلوت نشیں تھے باہم مخل ہوا غیر آ کے جس دم
تو ہوش و عقل و خرد سدھارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

نصیب اگر پھر ہوئی وہ صحبت بہم جو گزری میان عشرت
تو کام بگڑے خدا سنوارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خدا دکھائے جو وصل کی شب خوشی سے گل گل شگفتہ ہوں سب
جو داغ دل پر ہیں غم کے مارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

ملا ہے تم کو جو شہر خوبی تو ملک غم کے ہیں ہم بھی والی
ہوئے ہیں کشور دو اجارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

جو بات کرتے نہ غیر دیتے جھکا کے آنکھیں ہی دیکھ لیتے
کہ ہوتے باہم دگر اشارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خبر نہ افشاں کی ہم جھلک سے نہ تم خبر درد کی چمک سے
کچھ ان دنوں میں برے ستارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

نکالو وصلت کی تم جو راہیں کروں میں رہ رہ کے گرم آہیں
جہاز دودی لگیں کنارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خدا اٹھائے یہ پردۂ غم جو مل کے ہم تم ہوں شادؔ باہم
تو کیسی شادی ہو گھر میں پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse