جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے
by عابد علی عابد

جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے
زینت محفل صاحب نظراں ہوتا ہے

یہی دل جس کو شکایت ہے گراں جانی کی
یہی دل کار گہ شیشہ گراں ہوتا ہے

شاخ گلزار کے سائے میں کہاں دم لیجے
کہ یہاں خون کا سیل گزراں ہوتا ہے

کس کو دکھلائیے اپنوں کی ملامت کا سماں
کہ یہ اسلوب حدیث دگراں ہوتا ہے

کس کو بتلائیے وہ رابطۂ ناز و نیاز
ان کی محفل میں جو اے دیدہ وراں ہوتا ہے

کبھی کرتی ہے تجلی نگرانی دل کی
کبھی دل سوئے تجلی نگراں ہوتا ہے

مجھ پہ ہوتے ہیں غم دل کے صحیفے نازل
جن میں افسانۂ عالی گہراں ہوتا ہے

دل بھی دیتا ہے مجھے مشورۂ ترک وفا
کچھ تقاضائے جہان گزراں ہوتا ہے

میں تو ہوں شیفتۂ رنگ تغزل عابدؔ
کہ یہی شاہد خونیں جگراں ہوتا ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse