جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
by اسماعیل میرٹھی

جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا نہ گناہ گار ہوتا

مے بے خودی کا ساقی مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اترتا نہ کبھی خمار ہوتا

میں کبھی کا مر بھی رہتا نہ غم فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مجھے اختیار ہوتا

یہ جو عشق جاں ستاں ہے یہ جو بحر بیکراں ہے
نہ سنا کوئی سفینہ کبھی اس سے پار ہوتا

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہی کاروبار ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse