جو بھر لیں ایک چٹکی صاحب تاثیر مٹی کی
جو بھر لیں ایک چٹکی صاحب تاثیر مٹی کی
ابھی شرمندۂ تاثیر ہو اکسیر مٹی کی
بنا کر آدمی کیوں آب و گل میں عشق کو ڈالا
نکالی ہے خدا نے یہ نئی تعزیر مٹی کی
ہماری قبر پر بھی اک ہجوم بے کسی ہوگا
دکھا دیں گے پس مردن تجھے توقیر مٹی کی
زمین کوچۂ دلدار نے کیا پاؤں پکڑے ہیں
ملی دیوانگان عشق کو زنجیر مٹی کی
رہے گا ٹوٹ کر بھی خانۂ دل عالم حسرت
اسے بھی آپ سمجھے ہیں مگر تعمیر مٹی کی
یہی مٹی ہے جس سے سب بنائے جاتے ہیں یا رب
بتوں میں کیوں بدل جاتی ہے پھر تاثیر مٹی کی
وہ کشتہ ہوں کہ روئے خاک پر بھی آ گئی سرخی
خوشی سے شکل بدلی ہے دم تکبیر مٹی کی
جنون عشق میں تیرے زمانہ خاک برسر ہے
بڑھی ہے ان دنوں توقیر سے توقیر مٹی کی
زباں دی تھی خدا نے بولنے کے واسطے لیکن
بنایا ناز و تمکیں نے تمہیں تصویر مٹی کی
کہاں سیل حوادث میں پتا ہم خاکساروں کا
کہیں ٹھہری ہے روئے آب پر تعمیر مٹی کی
مسلط خاکیوں پر کیوں کیا ہے چرخ کو یا رب
نہ تھا مقبول عذر اس کا تو کیا تقصیر مٹی کی
وہ کیا کیا خاک اڑاتے ہیں زباں پر آ کے تو نے تو
ہماری بات بھی اے نالۂ شب گیر مٹی کی
تم آئے میرے گھر کا ذرہ ذرہ ہو گیا روشن
ہوئی مہر درخشاں سے سوا تنویر مٹی کی
اڑانے دیتے ہیں وحشت زدہ تیرے کوئی دن میں
بڑھے گی جستجو اب صورت اکثیر مٹی کی
وہ آئے خاک اڑانے کو پس مردن تو حسرت سے
ہماری روح کہتی ہے زہے تقدیر مٹی کی
بنایا اس سے ہے دشمن کو اور ہم کو مگر سالکؔ
کہیں توقیر مٹی کی کہیں تحقیر مٹی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |