جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
by آرزو لکھنوی

جو بت ہے یہاں اپنی جا ایک ہی ہے
دوئی چھوڑ بندے خدا ایک ہی ہے

یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے
اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے

ہیں اپنی ہی نیت کے پھل تلخ و شیریں
وگرنہ مزہ درد کا ایک ہی ہے

بھرے رنگ جتنے بدلتا زمانہ
مگر عشق کا ماجرا ایک ہی ہے

سبھی شکوے مٹتے ہیں چشم کرم سے
مرض ہوں ہزاروں دوا ایک ہی ہے

دو رنگی دنیا سے کیا کام ہم کو
کہ فردوس دل کی فضا ایک ہی ہے

بناتے ہیں بے خود سبھی حسن والے
ٹھکانے الگ راستہ ایک ہی ہے

کوئی سمجھے نغمہ کوئی سمجھے نالہ
مرے ساز دل کی صدا ایک ہی ہے

وہ دار و رسن ہوں کہ ہوں زہر و خنجر
بہانے ہزاروں قضا ایک ہی ہے

محبت کرے اور ہو بے غرض بھی
لو پھر آرزوؔ آپ کا ایک ہی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse