جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں
وہ ایسے ہیں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں

بڑے جنتی ہیں یہ مے خوار زاہد
مئے تلخ کو انگبیں جانتے ہیں

جوانی خود آتی ہے سو حسن لے کر
جواں کوئی ہو ہم حسیں جانتے ہیں

شب ماہ بنتی ہے ہر شب مرے گھر
یہ سب بادہ وش مہ جبیں جانتے ہیں

بناوٹ بھی اک فن ہے جو جانتا ہو
تری سادگی کچھ ہمیں جانتے ہیں

نگاہیں نہ آنکھوں کے گھونگھٹ سے نکلیں
ادائیں غضب شرمگیں جانتے ہیں

تری کم نگاہی سے ابھرے ہیں فتنے
تجھے غیر چیں بر جبیں جانتے ہیں

مری جان پر رات بن بن گئی ہے
مرا حال کچھ ہم نشیں جانتے ہیں

جو واقف نہیں لطف تجدید سے کچھ
وہ توبہ کی لذت نہیں جانتے ہیں

وہ شرمیلی آنکھیں وہ شرمیلی باتیں
وہ ہنسنا بھی کھل کر نہیں جانتے ہیں

مری بت پرستی بھی ہے حق پرستی
مرا مرتبہ اہل دیں جانتے ہیں

بڑے پاک طینت بڑے صاف باطن
ریاضؔ آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse