جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
by مومن خان مومن

جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا

پالغز محبت سے مشکل ہے سنبھل جانا
اس رخ کی صفائی پر اس دل کا بہل جانا

سینہ میں جو دل تڑپا دھر ہی تو دیا دیکھا
پھر بھول گیا کیسا میں ہاتھ کا پھل جانا

اتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہیں فرماؤ
گھر میں مرے رہ جاؤ آج اور بھی کل جانا

اے دل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تو نے کہیں سکھلایا قابو سے نکل جانا

کیا ایسے سے دعویٰ ہو محشر میں کہ میں نے تو
نظارۂ قاتل کو احسان اجل جانا

ہے ظلم کرم جتنا تھا فرق پڑا کتنا
مشکل ہے مزاج اتنا اک بار بدل جانا

حوروں کی ثنا خوانی واعظ یوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا

عشق ان کی بلا جانے عاشق ہوں تو پہچانے
لو مجھ کو اطبا نے سودے کا خلل جانا

کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دکھاتا ہے کافور کا جل جانا

مطلب ہے کہ وصلت میں ہے بوالہوس آفت میں
اس گرمی صحبت میں اے دل نہ پگھل جانا

دم لینے کی طاقت ہے بیمار محبت ہے
اتنا بھی غنیمت ہے مومنؔ کا سنبھل جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse