جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم
by شاد لکھنوی

جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم
برسات کے موسم میں بھی پھولے نہ پھلے ہم

محروم چمن مرغ قفس بند ازل ہیں
صیاد کے پنجرے میں ہیں بچپن سے پلے ہم

جب غیر سے ہوتا ہے وہ سفاک بغل گیر
تیغ صفہانی کو لگاتے ہیں گلے ہم

چکی کی طرح چرخ نے پیسا تو ہمیں کو
دانا ہیں زمانے کے گئے اس سے ولی ہم

یہ شوق شہادت ہے جو تیغ اس نے علم کی
گردن کو جھکائے ہوئے صیاد چلے ہم

وہ مست ہیں جب در پہ اڑے پیر مغاں کے
بے مے کے پیے پھر نہیں ٹالے سے ٹلے ہم

ابرو کی ہوا بھی نہ لگی بو الہوسوں کو
اس تیغ کی روز آنچ میں بے آب جلے ہم

کچھ غم نہیں بت سمجھیں بد و نیک جو چاہیں
اللہ کے بندے ہیں برے ہیں کہ بھلے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse