جوش گل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش گل
by نظم طباطبائی

وہ موسم ہے کہ خوبان چمن بنتے سنورتے ہیں
یہ عالم ہے کہ جیسے رنگ تصویروں میں بھرتے ہیں
ہے خوابیدہ جو سبزہ آئنہ خانے میں شبنم کے
نفس دزدیدہ باد صبح کے جھونکے گزرتے ہیں
پر طوطی پہ ہوتا ہے دم طاؤس کا دھوکا
ہوا سے اڑ کے برگ گل جو سبزہ پر بکھرتے ہیں
ملا ہے سبزہ نوخیز کو کیا رنگ زنگاری
ہوا لگنے سے جس کی زخم دل لالہ کے بھرتے ہیں
شگوفہ ریز ہو کر ڈالیاں مدہوش کرتی ہیں
کہ میکش جانتے ہیں طاق سے شیشے اترتے ہیں
نزاکت سے ادا سے جھوم کر کہتی ہے شاخ گل
یونہی اک جام پی کر رنگ مستوں کے نکھرتے ہیں
بشاشت کہہ رہی ہے چہرۂ گل کی ادھر دیکھو
یوں ہی محفل میں ہنس دیتے ہیں پیمانے جو بھرتے ہیں
چمن کی بڑھ کے شاخیں ابر سے کرتی ہیں گل بازی
گلوں کی آئنہ داری پر طاؤس کرتے ہیں
گماں ہوتا ہے کی لشکر کشی باد بہاری نے
زرہ پوش آب ہو جاتا ہے جب بادل گزرتے ہیں
دم صبح بہاری ہے رخ خور پر نقاب افگن
کسی آئینہ پر تار نفس جیسے بکھرتے ہیں
وہیں جا کر تھمے گا کاروان لالہ و گل بھی
نسیم صبح کے جھونکے جہاں جا کر ٹھہرتے ہیں
نہالان چمن کر لیں گے قبضہ سارے عالم پر
وہاں سے پھر نہیں ہٹتے جہاں پہ پاؤں دھرتے ہیں
زمیں پر جال پھیلایا ہے کوسوں زلف سنبل نے
عنادل ان دنوں آتے ہوئے گلشن میں ڈرتے ہیں
جواب جشن جم ہے گرمئ ہنامۂ گلشن
کہ لے کر کشتئ مے تخت پریوں کے اترتے ہیں
عنادل مل چکے ہیں خاک میں جو کیا خبر ان کو
کہ شاخیں جھومتی ہیں پھول تربت پر بکھرتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse