جوش پر یوں جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش پر یوں جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
by بوم میرٹھی

جوش پر یوں جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دیکھ کر ان کو برہنہ مجھ کو پیار آ ہی گیا

غیر جب خلوت سے نکلا دوڑ کر میں نے کہا
دوسرا بھی آپ کا امیدوار آ ہی گیا

تھا نزاکت سے بہت مجبور پھر بھی بعد مرگ
سالا اٹھتا بیٹھتا سوئے مزار آ ہی گیا

اس کا سینہ سے لپٹنا تھا کہ تسکیں ہو گئی
بے قراری کو مری کچھ تو قرار آ ہی گیا

انتظاری میں کسی کے رات بھر تڑپا کئے
جھوٹے وعدہ کا کسی کے اعتبار آ ہی گیا

ان کا بیمار محبت سنتے ہی اعلان دید
تھام کر دل گرتا پڑتا بے قرار آ ہی گیا

خوف بدنامی سے گو اکثر چھپایا جرم کو
لب پر ان کا نام پھر بھی بار بار آ ہی گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse