جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں
by تعشق لکھنوی

جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں
بہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں

ہیں جلو میں صفت ابر بہاری آنکھیں
اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں

کیوں اسیران قفس کی طرف آنا چھوڑا
پھیر لیں تو نے بھی اے باد بہاری آنکھیں

سامنے آ گئی گلگشت میں نرگس شاید
پلکوں سے چیں بہ جبیں ہیں جو تمہاری آنکھیں

کیا در اشک سے ہیں دامن مژگاں مملو
کب زباں ہے کہ کریں شکر گزاری آنکھیں

دیکھتے ہیں طرف چاہ ذقن الفت سے
مفت میں ہم کو ڈبوتی ہیں ہماری آنکھیں

شوخیاں آہوؤں کی ذہن میں کب آتی ہیں
کچھ دنوں ہم نے بھی دیکھی تھیں تمہاری آنکھیں

قطرۂ آب کو محتاج کیا گردوں نے
یاد ایام کہ تھیں چشمہ جاری آنکھیں

دور سے دیکھ کے تم کو کوئی جی بھرتا ہے
کر رہی ہیں فقط ایام گزاری آنکھیں

ابر کو دیکھ کے ہر مرتبہ جوش آتا ہے
اب تو آئیں ہیں مرے ضبط سے عاری آنکھیں

جب ہٹا آئنہ آگے سے ہوئیں کیا بے چین
اپنے پر آپ ہی عاشق ہیں تمہاری آنکھیں

لطف دیکھا نہ کسی چیز کا اشکوں کے سوا
آئیں تھیں رونے کو دنیا میں ہماری آنکھیں

کہتی ہے بھر کے دم سرد خزاں میں بلبل
ڈھونڈھتی ہیں تجھے اے فصل بہاری آنکھیں

تم کو شرم آتی ہے ہم قابل نظارہ نہیں
نہ رہا حسن تمہارا نہ ہماری آنکھیں

کیوں چراگاہ غزالاں نہ کہوں پلکوں کو
پھر رہی ہیں میری نظروں میں تمہاری آنکھیں

روؤں کس واسطے گر سامنے آنا چھوڑا
آپ کو حسن ہے پیارا مجھے پیاری آنکھیں

کور ہو جاؤں مگر عشق میں رونے کو نہ روک
ناصحا دل سے زیادہ نہیں پیاری آنکھیں

سیکڑوں شیشۂ دل بادہ کشوں کے توڑے
محتسب سے ہیں زیادہ وہ خماری آنکھیں

پھول نرگس کے گرے شاخ سے ڈالی جو نظر
تیری آنکھوں کی اطاعت میں ہیں ساری آنکھیں

فرش ہو جاتی ہیں تم پاؤں جہاں رکھتے ہو
ادب آموز محبت ہیں ہماری آنکھیں

بعد مدت کے ذرا ہوش میں آیا ہوں آج
پھر دکھا دے مجھے ساقی وہ خماری آنکھیں

اشک خونیں سے اسیری میں اٹھا لطف بہار
ہے قفس رشک چمن ابر بہاری آنکھیں

کیا کریں بزم حسیناں میں تعشقؔ جا کر
نہ رہیں قابل نظارہ ہماری آنکھیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse