جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس
by بیخود موہانی

جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس
اٹھے آخر تک بگولے آہ اس محمل کے پاس

ہیں جگر میں تیرے ناوک کی قسم گنتی کے زخم
نام کو رستے ہوئے ناسور ہیں کچھ دل کے پاس

ایک منزل روح کو تا مرگ ہے ہر ایک سانس
یہ مسافر دور منزل سے ہے اور منزل کے پاس

موج خون کشتگاں ہے وحشت آموز خیال
دل لرزتا ہے کہ خنجر ہے ابھی قاتل کے پاس

مست دنیا مضطرب تھے شاد تھے اہل نیاز
جب بھنور سے بچ کے ڈوبیں کشتیاں ساحل کے پاس

بے نیازی اپنی سی دے ڈال پورا کر سوال
ورنہ ہے تیرا دیا سب کچھ ترے سائل کے پاس

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse