جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی
by رشید لکھنوی

جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی
ہیں جہاں سو آبلے کچھ خار صحرا بھی سہی

دل میں سو باتیں ہیں اک تیری تمنا بھی سہی
سر پہ ہیں لاکھ آفتیں اک داغ سودا بھی سہی

منہ پہ آنچل لیجئے مجھ سے جو آتا ہے حجاب
گر یہی منظور ہے تھوڑا سا پردہ بھی سہی

دل میں وقت ذبح ہے حسرت کہ تم کو دیکھ لیں
مرتے مرتے خیر جینے کی تمنا بھی سہی

ہم عدم سے یاں نہ آتے تھے تو سمجھاتا تھا دل
اک نظر گلزار ہستی کا تماشا بھی سہی

میرا حال سخت جانی سن کے فرمانے لگے
تیغ کے ساتھ ایک ابرو کا اشارا بھی سہی

گرم آہیں کر چکا اب کھینچتا ہوں سرد آہ
لیجئے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھی سہی

کیوں بگڑیے حسن و رفعت میں کسے انکار ہے
آپ یوسف بھی سہی رشک مسیحا بھی سہی

اپنے دل کو گر پسند آئے تو جانیں خوب ہے
ہم نے مانا یار تم سے کوئی اچھا بھی سہی

تیرہ بختوں کے مزاروں پر نہ ہوگی روشنی
آزما دیکھو چراغ دست موسیٰ بھی سہی

چارہ سازوں کی خوشی ہے زخم پر ہوں یا نہ ہوں
مرہم زنگار کا ایک آدھ پھاہا بھی سہی

تیرے سر سے پاؤں تک برسوں میں جاتی ہے نظر
ہر جگہ پر کہتی ہے یاں کا تماشا بھی سہی

دل جگر میں کچھ نہیں سینے میں ہیں پر آس ہے
بزم کی زینت کو خالی جام و مینا بھی سہی

یہ تو ظاہر ہو گیا تم مرتبے میں ہو بلند
اب مسیحا سے مسیحائی کا دعویٰ بھی سہی

اس کے در پر جا کے کچھ حاصل نہ ہوگا اے رشیدؔ
کوئی بولا بھی سہی تم نے پکارا بھی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse