جور کے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جور کے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے
by داغ دہلوی

جور کے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے
تم تلافی جو کرو اس کی ضرورت کیا ہے

ایک دن مان ہی جاؤ گے ہمارا کہنا
تم کہے جاؤ یہی تیری حقیقت کیا ہے

وعدہ وصل سے انکار ہے تو قتل کرو
تم سے ہم پوچھتے ہیں اس میں قباحت کیا ہے

بوسہ مانگا تو کہا اس نے بدل کر چتون
آپ کو یہ بھی خبر ہے مری عادت کیا ہے

ہائے کیا تھا وہ زمانہ کہ تم آگاہ نہ تھے
شکر کس چیز کو کہتے ہیں شکایت کیا ہے

کیا کہوں کس سے کہوں دل کی حقیقت اے داغؔ
سب یہی پوچھتے ہیں کہئے تو حضرت کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse