جور پیہم کی انتہا بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جور پیہم کی انتہا بھی ہے
by نسیم بھرتپوری

جور پیہم کی انتہا بھی ہے
ایک کے بعد دوسرا بھی ہے

غیر نے بزم یار میں ہم سے
کچھ کہا ہے تو کچھ سنا بھی ہے

شوق سے دل مرا کرو پامال
یہی کمبخت کی سزا بھی ہے

ان کی ترچھی نظر سے ڈرتا ہوں
یہ ادا ہی نہیں قضا بھی ہے

کہتے ہیں وہ جو پوچھتا ہوں مزاج
آپ سے کوئی بولتا بھی ہے

نہیں واقف نسیمؔ سے کیا خوب
کوئی تم پر مٹا ہوا بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse