جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
by ریاض خیرآبادی

جوبن ان کا اٹھان پر کچھ ہے
اب مزاج آسمان پر کچھ ہے

کیا ٹھکانا ہے بات کا ان کی
دل میں کچھ ہے زبان پر کچھ ہے

وعدہ ہے غیر سے یہ حیلہ ہے
کام مجھ کو مکان پر کچھ ہے

حور کا ذکر کیوں کیا دم مرگ
شبہ میرے بیان پر کچھ ہے

گمشدہ دل نہ ہو کہیں میرا
ان کی محرم کی پان پر کچھ ہے

ہو کے رسوا کسے کیا رسوا
ذکر سب کی زبان پر کچھ ہے

کیوں نہ ہو شوق جلوۂ لب بام
اب جوانی اٹھان پر کچھ ہے

کہو میہمان غم سے اب رخصت
قرض کیا میزبان پر کچھ ہے

بنگ ہی دے جو مے نہیں واعظ
تیری اونچی دکان پر کچھ ہے

میں نے گھورا تو ہمدموں سے کہا
دیکھو اس نوجوان پر کچھ ہے

رکھ دیا ہاتھ ان سے یہ کہہ کر
ٹھہرو اے جان ران پر کچھ ہے

کوئی چھپ کر گیا ہے غیر کے گھر
شک قدم کے نشان پر کچھ ہے

بالے پہنے الٹ کے کانوں میں
اور گھبرائے کان پر کچھ ہے

ہوں یہاں اس لیے دکن کو ریاضؔ
رشک ہندوستان پر کچھ ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse