جوانی یاد ہم کو اپنی پھر بے اختیار آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوانی یاد ہم کو اپنی پھر بے اختیار آئی
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

جوانی یاد ہم کو اپنی پھر بے اختیار آئی
ہوا دیوانوں میں جب غل بہار آئی بہار آئی

ہوا تھا مرگ سے غافل میں کس دن جوش وحشت میں
صبا کیوں لے کے میرے سامنے مشت غبار آئی

دکھائے رنج پیری کے اجل تیرے تغافل نے
تجھے آنا تھا پہلے آہ تو انجام کار آئی

ہمارے توسن عمر رواں کے تیز کرنے کو
شمیم زلف دوش باد صرصر پر سوار آئی

نہ پایا وقت اے زاہد کوئی میں نے عبادت کا
شب ہجراں ہوئی آخر تو صبح انتظار آئی

نہ کچھ خطرہ خزاں کا ہے نہ احسان بہار اس پر
عدم سے اپنی شاخ آرزو بے برگ و بار آئی

ہماری دیکھیو غفلت نہ سمجھے وائے نادانی
ہمیں دو دن کے بہلانے کو عمر بے مدار آئی

جو ننگ عشق ہیں وہ بو الہوس فریاد کرتے ہیں
لب زخم ہوسؔ سے کب صدائے زینہار آئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse