جوانی مئے ارغوانی سے اچھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوانی مئے ارغوانی سے اچھی
by ریاض خیرآبادی

جوانی مئے ارغوانی سے اچھی
مئے ارغوانی جوانی سے اچھی

بقا جس میں ہو شے وہ فانی سے اچھی
ہمیں موت اس زندگانی سے اچھی

جوانی ہو اچھی سی اچھی کسی کی
نہ ہوگی تمہاری جوانی سے اچھی

یہ مے شیخ کو نار دوزخ سے بڑھ کر
یہ مے ہم کو جنت کے پانی سے اچھی

ہمیشہ کو اب ہو گئی آنکھ موسیٰ
صدا ہوگی کیا لن ترانی سے اچھی

اگر پاسبانی ملے تیرے در کی
تو خدمت نہیں پاسبانی سے اچھی

ملا ٹوٹ کر ہم نے توبہ جو توڑی
نبھی چند دن شیخ فانی سے اچھی

نشانہ بنے دل رہے تیر دل میں
نشانی نہیں اس نشانی سے اچھی

تری خوش بیانی کا کیا ذکر واعظ
خموشی تری خوش بیانی سے اچھی

جوانی تو گزری بڑھاپے سے بد تر
گزر جائے پیری جوانی سے اچھی

جو الفت میں حاصل ہوئیں قیس تجھ کو
یہ ناکامیاں کامرانی سے اچھی

ریاضؔ آ رہو تم جو ساحر کے در پر
رہے موت بھی زندگانی سے اچھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse