جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
by آرزو لکھنوی

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں

آشوب جدائی کیا کہیے ان ہونی باتیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجالی راتیں ہوتی ہیں

جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں
یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں

گھر گھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں
امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں

امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے
دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں

طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے
بہروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں

آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہو کی لالی ہے
اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں

قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں
دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں

جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں

جو ناز ہے وہ اپناتا ہے جو غمزہ ہے وہ لبھاتا ہے
ان رنگ برنگی پردوں میں گھاتوں پر گھاتیں ہوتی ہیں

ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں
ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نہ بن جائے
پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

جب تک ہے دلوں میں سچائی سب ناز و نیاز وہیں تک ہیں
جب خود غرضی آ جاتی ہے جل ہوتے ہیں گھاتیں ہوتی ہیں

ہمت کس کی ہے جو پوچھے یہ آرزوئے سودائی سے
کیوں صاحب آخر اکیلے میں یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse