جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص
by نظیر اکبر آبادی

جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص
کھل رہا تھا وہ جا بجا اخلاص

اس کو بھی ہم سے تھی بہت الفت
اور ہمیں اس سے تھا بڑا اخلاص

مل کے جب بیٹھتے تھے آپس میں
تھا دکھاتا عجب مزا اخلاص

ایک دن ہم میں اور نظیرؔ اس میں
ہو کے خفگی جو ہو چکا اخلاص

ہم یہ بولے کدھر گئی الفت
وہ یہ بولا کدھر گیا اخلاص

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse