جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے
by ولی عزلت

جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے
اس ایاغ چشم کے پیوستہ مے خواروں میں تھے

چونک چونک اب کھینچو ہو دامن ہماری خاک سے
وہ بھی سپنا ہو گیا تم گل تھے ہم خاروں میں تھے

خار و خس محرم ہیں پر فن گرچہ ہم رہے جوں حباب
ہم ترے اے بحر حسن آخر ہوا داروں میں تھے

خاک بھی ان کی ہے شکل سرو مثل گرد باد
اس قدر آزاد کے جیتے گرفتاروں میں تھے

خصم جو مقراض گل چیں ہیں ترے اے شمع قد
جوں پتنگے جل گئے ہم جو ترے یاروں میں تھے

اس عزیز خلق کی آنکھوں کے دو بادام پر
بک گئے وہ سب جو یوسف کے خریداروں میں تھے

ایک پتھر بھی نہ آیا سر پہ عزلتؔ اب کی سال
گئے کدھر طفلاں جو دیوانوں کے غم خواروں میں تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse