جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
by فانی بدایونی

جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
جو خاک کا ذرہ تھا وحشت کدۂ دل تھا

بیداد کی ہر تہ میں سو طرح سے شامل تھا
وہ جان کا دشمن جو کہنے کو مرا دل تھا

غم حسن مکمل تھا دل حیرت کامل تھا
تصویر کا آئینہ تصویر کے قابل تھا

ہم جی سے گزر جانا آسان سمجھتے تھے
دیکھا تو محبت میں یہ کام بھی مشکل تھا

آئینہ و دل دونوں کہنے ہی کی باتیں تھیں
تیری ہی تجلی تھی اور تو ہی مقابل تھا

ہر باطل و ہر ناحق اک راز حقیقت ہے
جس شکل میں حق آیا وابستۂ باطل تھا

ہاں آپ کسی کو یوں برباد نہیں کرتے
یہ فانیؔٔ ناکارا سچ ہے اسی قابل تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse