جنگ کا انجام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنگ کا انجام
by میراجی

بہو کہے یہ بڑھیا میری جان کی لاگو بن کے رہے گی
ساس کہے گز بھر کی زباں ہے اپنی منہ آئی ہی کہے گی
بہو کہے جب دیکھو جب ہی خواہی نخواہی بات بڑھانا
ساس پکارے اے مرے اللہ توبہ بھلی اب تو ہی بچانا
بہو کہے اپنا گھر کیسا یاں تو اپنے بھی ہیں پرائے
ساس کہے جل بھن کے اسے تو راج محل بھی راس نہ آئے
بہو کہے جس کے ہاتھوں ہے ڈوئی اسی کا سب کوئی ہے
ساس پکارے جاؤ جی جاؤ پاؤں کی جوتی سر پہ چڑھی ہے
بہو کہے مجھ جنم جلی کو کس کے پلے باندھ دیا ہے
ساس کہے اب کون بتائے آگے جو آیا ہے کس کا کیا ہے
بہو کہے یہ پوت کی دردی بس جو چلے تو بس ہی کھلا دے
ساس کہے وہ بات ہے اپنی گالی سنے اور پھر بھی دعا دے
بہو کہے اب سر پہ پڑی ہے جیسے بھی ہو گزر جائے گی
ساس کہے جب دیکھو اس کو دودھ ملیدہ ہی کھائے گی
بہو کہے جی جو آتا تھا ساس کے سامنے بول رہی تھی
ساس بھی لیکن ترکی بہ ترکی بھید بہو کے کھول رہی تھی
ننھے نے یہ موقع تاڑا جھٹ باورچی خانے پہنچا
دودھ پہ آئی تھی جو ملائی چپکے سے اس کو کھانے پہنچا
کھا کے جو لوٹا راہ میں اس نے کالی بلی جاتے پائی
دیکھ کے اس کو ڈر کے مارے زور کی اس نے چیخ لگائی
ایک ہی چیخ نے اس کی پل میں ساس بہو کا جھگڑا چکایا
دوڑی بہو مرے لال ہوا کیا ساس پکاری ہائے خدایا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse