Jump to content

جنگ نامہ (میر تقی میر)

From Wikisource
جنگ نامہ
by میر تقی میر
314933جنگ نامہمیر تقی میر

اب کے نواب رام پور آیا
ناگہاں اس طرف خدا لایا
آگے آتا تھا بہر سیر و شکار
بازی یکسر روہیلی ہے اس بار
گرد تھی فوج کی سپہر تلک
بن گیا اور ایک تازہ فلک
جمع افغاں پسر تھے اس جاگہ
لیک سارے تھے جنگ نا آگہ
یہ نہ سمجھے وزیر کوہ وقار
ہے تحمل سے رہ میں دیرگذار
یعنی تخریب ایک آن میں ہے
روکشی اس کی کسر شان میں ہے
بے تہی سے وہ پیش جنگی کر
دانتے دے دے گرے ہراول پر
دیکھ کر لوگ تھوڑے ٹوٹ پڑے
پکے پھوڑے کے رنگ پھوٹ پڑے
چتھے تلواروں میں فرنگی سے
مرے مارے بہت کڈھنگی سے
تھا تہور نہ یہ شجاعت تھی
ساعت جنگ یا قیامت تھی
تھے تلنگے روہیلے محو جنگ
لوتھوں سے ہوگیا تھا عرصہ تنگ
گورے کالے جدا جدا کیا تھے
دونوں مردم گیا سے یکجا تھے
دیو کا بھی نہ ٹھہرے پا اس جا
تھا انھوں کا جہاں ثبات پا
سہل سردار سمجھا یہ مرنا
اللہ اللہ ترا جگر کرنا
توپ پر آن کر چلی تلوار
جھیل کر زخم لڑ موا سردار
صاحب اک اور اس کی جا آیا
جن نے ایسی ہلاکو چنوایا
جنگ مغلوبہ تھی گتھے باہم
مرتے تھے دونوں اور کے رستم
صاحب انگریز کے گرے اکثر
تھک گئے لڑتے مرتے ہم دیگر
تاک کر باڑھ پہلو سے ماری
صف الٹ دی حریف کی ساری
لشکری سب سراں سمیت رہے
سبز جو کچھ ہوئے تھے کھیت رہے
نعش پر نعش گر کے ڈھیر ہوئے
بھوکے مرتے کہ جی سے سیر ہوئے
پیچھے سردار تھا پٹھانوں کا
دیکھا جانا جو ان نے جانوں کا
خواب غفلت سے چونک اٹھا جاگا
دست پاچہ ہوا گیا بھاگا
مارے بھاگوں کو فوج نے لوٹا
مرگیوں میں سے بھی نہ اک چھوٹا
غارت ازبسکہ لشکری لائے
نعشوں سے اشرفی روپئے پائے
وہ جو بھاگا تھا معرکہ سے رئیس
بھاگا یوں جیسے پیش اسپ سئیس
ہوتے جو ہیں روہیلے ظلم شعار
لٹتے جاتے تھے شہر راہگذار
رام پور میں بھی آکے رہ نہ سکا
وہ خداگیر بات کہہ نہ سکا
بھاگا واں سے ہے لے کے کچھ اسباب
کہ لگا آیا لشکر نواب
لی پناہ ان نے جا کے زیر کوہ
واں بھی تھا ساتھ کوہ کوہ انبوہ
تھا پہاڑی کے آگے جنگل بھی
وہیں ناکہ پہ تھا یہ دنگل بھی
وھاں روہیلے ہوئے اکٹھے سب
بعد دو چار پنج روز و شب
عجز کی راہ سے کیا پیغام
ہم ہیں نواب کے کمینے غلام
بندے رہتے ہیں باوجود خطا
تم سے صاحب امیدوار عطا
لطف کریے امیدواروں پر
رحم کریے گناہگاروں پر
ہم غلامی میں ہوتے ہیں حاضر
اب نہ خدمت سے ہوویں گے قاصر
کسو صاحب کو ہو حضور سے حکم
موجب طوع وہ ہے دور سے حکم
کہ مجھے اپنے ہاتھ لے جاوے
پاؤں کتنے کے عاجز آ پاوے
ذات نواب ہے کرم سیرت
کہا صاحب کو تم بصد عزت
معرفت اپنے جا کے لاؤ اسے
پاس خیمے میں لا بٹھاؤ اسے
یاکہ خیمہ جدا کرو استاد
ہم اسے وقت پر کریں گے یاد
لایا صاحب چنانچہ خود جاکر
پاس کرنا ہے تا نفر چاکر
سر میں اس کے خیال باطل تھا
آپ بھی وہ جوان جاہل تھا
گفتگو میں کجی لگا کرنے
ہوا موجود مارنے مرنے
چاہتا تھا کہ آپ کو مارے
بارے ہتھیار چھن گئے سارے
رفقا کے تئیں نکال دیا
رنجہ کر ٹہلوؤں کو ٹال دیا
اٹھ گئے جو حرام زادے تھے
ہو چکے دل میں جو ارادے تھے
عاقبت اس کو باندھ کر بھیجا
کہا پلٹن سے لکھنؤ لے جا
جمع تھے لوگ سو پریشاں ہیں
رہ گئے ہیں سو عجز کیشاں ہیں
جنگ کی صبح کے تئیں ہے نہ شام
آشتی کے ہیں اب پیام و سلام
غالباً صبح آج کل ہووے
برطرف جملگی خلل ہووے
لے کے اب ملک و مال سب نواب
راہ لیتے ہیں لکھنؤ کی شتاب
سال تاریخ کا تھا مجھ کو خیال
لطف کے رو سے کی ملک نے مقال
کاے سخن گستر و جہاں استاد
فتح نواب سے کر اب دل شاد
میرؔ کوئی غزل کہو اب تم
لذت شعر میں رہو خود گم

غزل

گرد سر پھر کے کرتے پہروں پاس
سو تو ہم لوگ اس کے آس نہ پاس

خط پہ خط بھیجتا تھا لکھوا کر
جب تلک یار تھا نہ حرف شناس

دل نہ باہم ملے تو ہجراں ہے
ہم وے رہتے ہیں گو کہ پاس ہی پاس

عرش و دل میں رہے مگر برسوں
وہم ہے پر کہیں کہیں ہے قیاس

ہے چلا جب سے وہ پریشاں ربط
جمع اک دم رہے نہ میرے حواس

ناامیدی بھی حد رکھتی ہے
جیتا کب تک رہے گا کوئی نراس

جز خدا ہم کسو سے ڈرتے نہیں
گھر ہمارا ہے واں جہاں ہے ہراس

میں تو حیران کار ہوں بے ہوش
کیونکے نکلے گی میرے دل کی بھڑاس

میرؔ وحشی کا دل ہے بے طاقت
چلتا پھرتا ہے پر اداس اداس

غزل

رہے عمر بھر دیکھتے سادگاں کو
یہ جینے نہیں دیتے دل دادگاں کو

خبر قاصدوں کو نہیں اپنی شاید
بہت دور بھیجا فرستادگاں کو

عجب سادگاں میں ہے قشقوں کی خوبی
نہ ہو عجب کیوں برہمن زادگاں کو

نہال اور سرو اس کے حیراں کھڑے ہیں
کیا پاے گیر ان نے آزادگاں کو

رہے زیر دیوار ہم میرؔ برسوں
نہ پوچھا کبھی خاک افتادگاں کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.