جنوں کے جوش میں پھرتے ہیں مارے مارے اب
Appearance
جنوں کے جوش میں پھرتے ہیں مارے مارے اب
اجل لگا دے کہیں گور کے کنارے اب
گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا
کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب
عجب نہیں ہے کہ پھر آج ہم سحر دیکھیں
کہ آسمان پہ گنتی کے ہیں ستارے اب
جب اس کے ہاتھ میں دل ہے مری بلا جانے
ملے وہ پاؤں سے یا اپنے سر سے وارے اب
عنایتوں کی وہ باتیں نہ وہ کرم کی نگاہ
بدل گئے ہیں کچھ انداز اب تمہارے اب
یہ ڈر ہے ہو نہ سر رہ گزار ہنگامہ
سمجھ کے کیجئے درباں سے کچھ اشارے اب
حفیظؔ سوچئے اس بات میں ہیں دو پہلو
کہا ہے اس نے کہ اب ہو چکے تمہارے اب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |