جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا
by ساحر دہلوی

جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا
سبکدوشی سمجھتا ہے وہ اس سودا میں سر جانا

کسی کا ناز تھا انداز تھا اب سر بسر جانا
ادھر چڑھنا نگاہوں میں ادھر دل میں اتر جانا

تصور خال و عارض کا تماشائے دوعالم ہے
یہاں آنکھوں میں رہنا ہے وہاں دل میں اتر جانا

جنون عشق میں کب تن بدن کا ہوش رہتا ہے
بڑھا جب جوش سودا ہم نے سر کو درد سر جانا

ہوس بازی نہیں یہ عشق بازی ہے خدا شاہد
محبت میں ہے شرط اولیں جی سے گزر جانا

مٹائی اپنی ہستی ہم نے عشق جان جاناں میں
فنا میں دیکھ کر رنگ بقا کو معتبر جانا

سراپائے وفا اک زندۂ جاوید و بے غم ہے
تکلف برطرف غم کیا ہے جینا اور مر جانا

ہماری عمر کا پیمانہ اب لبریز ہے ساحرؔ
چھلکنا فرض ہو جاتا ہے پیمانے کا بھر جانا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse