جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
by مضطر خیرآبادی

جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
گریباں پھاڑنے سے فاش پردا ہو ہی جاتا ہے

محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے
طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے

جوانی وصل کی لذت پہ راغب کر ہی دیتی ہے
تمہیں اس بات کا غم کیوں ہے ایسا ہو ہی جاتا ہے

بگڑتے کیوں ہو آپس میں شکایت کر ہی لیتے ہیں
عدو کا تذکرہ دشمن کا چرچا ہو ہی جاتا ہے

تمہاری نرگس بیمار اچھا کر ہی دیتی ہے
جسے تم دیکھ لیتے ہو وہ اچھا ہو ہی جاتا ہے

اکیلا پا کے ان کو عرض مطلب کر ہی لیتا ہوں
نہ چاہوں تو بھی اظہار تمنا ہو ہی جاتا ہے

مرا دعوئ عشق اغیار باطل کر ہی دیتے ہیں
جسے جھوٹا بنا لیں یار جھوٹا ہو ہی جاتا ہے

بتان بے وفا مضطرؔ دل و دیں کر ہی لیتے ہیں
تمہیں پر کچھ نہیں موقوف ایسا ہو ہی جاتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse