جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی
by رشید لکھنوی

جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی
سر شوریدہ خود کرنے لگا تدبیر پتھر کی

یہ مشکل کس طرح حل ہو نہیں شمشیر پتھر کی
دل صیاد پتھر گردن نخچیر پتھر کی

بنا آئینہ چمکی کس قدر تقدیر پتھر کی
تمہارے روبرو آیا زہے توقیر پتھر کی

ہمارے جوش وحشت نے یہ ہم کو رنگ دکھلایا
نہ کچھ تقصیر لڑکوں کی نہ کچھ تقصیر پتھر کی

نشاں کچھ آپ بھی کر دیں ہوا دفن آپ کا مجنوں
پئے تاریخ رحلت کیجیے تدبیر پتھر کی

رگوں میں میری پیشانی کی جوش خوں ہوا پیدا
حکایت لکھ چکا جب کاتب تقدیر پتھر کی

جو تو سمجھے تو میرے تیرے دل کی ایک صورت ہے
یہ ہے تصویر مٹی کی وہ ہے تصویر پتھر کی

نہ جس میں لفظ و معنی ہوں کلام اس کو نہیں کہتے
چٹکنا پتھروں کا کب ہوئی تقریر پتھر کی

ترا سودا جہاں پر تھا رسائی ہو گئی واں تک
پڑا سر پر ہمارے لڑ گئی تقدیر پتھر کی

لگایا سنگ اپنے ہاتھ سے تو نے مرے سر پر
خوشا تقدیر میری اور زہے تقدیر پتھر کی

قسم لوگو ادب سے آنکھ اٹھا کے میں نے دیکھا ہو
تمہارے در میں لوہے کی ہے یا زنجیر پتھر کی

دل سخت اے رشیدؔ زار اپنا ہے گراں ہم کو
بجا ہے کس طرح بھاری نہ ہو تصویر پتھر کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse