جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
by مرزا غالب

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بیتابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے
شعاع مہر سے تہمت نگہ کی چشم روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

فسون یک دلی ہے لذت بیداد دشمن پر
کہ وجد برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر

تکلف خار خار التماس بے قراری ہے
کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشت سوزن پر

یہ کیا وحشت ہے اے دیوانہ پیش از مرگ واویلا
رکھی بیجا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse