جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں
by ولی عزلت

جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں
کہ بہہ کر ریل میں اشکوں کے ہم تھے سیر دریا میں

ہماری خاک پر آہستہ ٹھوکر مار اے ظالم
مبادا شیشۂ دل ٹوٹ چبھ جاوے ترے پا میں

تمہارے آبلہ پاؤں کو جنگل یاد کرتا ہے
لہو ہر خار سے ٹپکے ہے اب لگ دست سودا میں

بکیفیت تھا از بس رات مذکور اس کی آنکھوں کا
بھری تھی بوئے نرگس یک قلم ہر جام صہبا میں

غبار آہ طوفاں سے چھپی ہے خاک میں بستی
یہ عزلتؔ شہر میں تھا جا رہا ناگاہ صحرا میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse