جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
Appearance
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
ابھی بزم طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
بہ ایں سیل غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |